جس طرح کھانا، پینا، لباس، پہننا، منہ ہاتھ دھونا، سونا جاگنا انسانی جبلت میں شامل ہیں اسی طرح جنس بھی ساری دنیا کا مسئلہ ہے۔ جنس مخالف میں دلچسپی لینا اور اپنی نسل کو آگے بڑھانا ہر جاندار کی خواہش اور ضرورت ہے
ضیاء الرحمن
انسان جب پیدا ہوتا ہے تو رنگ و نسل کے فرق کے بغیر یکساں قسم کے مراحل میں داخل ہوجاتا ہے۔ امیر و غریب میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ دو ہاتھ، دو ٹانگیں، ناک، کان، آنکھیں، پیٹ نظام اور بول و براز وغیرہ سب ایک ہی جیسے اور ان کی ضروریات اور دیکھ بھال کے آداب بھی ایک ہی جیسے ہوتے ہیں۔ معاشی و معاشرتی فرق البتہ ضرور ہوتا ہے۔ ایک بچے کو سردی و گرمی سے محفوظ رہنے کیلئے نہایت قیمتی لباس مہیا کردیا جاتا ہے اور دوسرا اسی طرح کا بچہ صرف ماں کے آنچل میں یا پھٹے پرانے کپڑوں میں موسموں کا مقابلہ کرنے پر مجبور۔ تاہم ضروریات زندگی میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ اس طبقاتی فرق کو آج تک مٹایا نہیں جاسکا اور نہ یہ ممکن ہے۔ جو بات میں قارئین کے ذہن نشین کرانا چاہتا ہوں وہ ایک نہایت اہم انسانی ضرورت ہے۔
جس طرح کھانا، پینا، لباس، پہننا، منہ ہاتھ دھونا، سونا جاگنا انسانی جبلت میں شامل ہیں اسی طرح جنس بھی ساری دنیا کا مسئلہ ہے۔ جنس مخالف میں دلچسپی لینا اور اپنی نسل کو آگے بڑھانا ہر جاندار کی خواہش اور ضرورت ہے۔ جس طرح ہمیں کھانے پینے، سونے جاگنے، نہانے دھونے ‘ اٹھنے بیٹھنے اور بول چال و باہم تعلقات کے علم و آداب جاننے اور سمجھنے کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح انسانی جنسی تعلق کیلئے نہایت اہم اور نازک علم کی بھی ضرورت ہے۔
لیکن اس نہایت اہم اور ضروری علم کو ہمارے بعض نادان لکھاریوں نے اپنی تحریروں کے ذریعے سے ایک ایسا رخ دے دیا ہے کہ ہم بحیثیت مسلمان اس علم کی ہوا تک اپنے بچوں کو لگنے نہیں دیتے اور اسے سات پردوں میں چھپا کر رکھنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں اور بچوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیتے ہیں۔ بچہ جب جوان ہوتا ہے اور اس میں قدرتی تبدیلیوں کا عمل شروع ہوجاتا ہے تووہ حیران و پریشان اپنے دوستوں خصوصاً شادی شدہ ساتھیوں کی طرف رجوع کرتا ہے جو اسے اپنے پوشیدہ واقعات بڑے مزے لے لے کر سناتے ہیں یا پھر اسے مختلف بازاری کتابوں (جو زیادہ تر انگریزی کتابوںکے ترجمے ہوتے ہیں) کو خرید کر پڑھنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ اہل مغرب کے تراجم پڑھ کر نوجوان مزید الجھ جاتا ہے جس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ یہ کتابیں اس معاشرتی پس منظر اور ان احوال و کوائف میں لکھی گئی ہوتی ہیں جو ہماری اسلامی اقدار اور مقامی معاشرت کا الٹ ہوتی ہیں۔ وہاں جنسی آزادی اور بے حیائی عروج پر ہے، لیکن ہماری مذہبی و معاشرتی اقدار کا تقاضا کچھ اور ہوتا ہے اور ہمارا نوجوان ان کتب سے کچھ حاصل کرنے کے بجائے اس نازک مسئلے میں الجھ کر رہ جاتا ہے اور اس کے ذہن میں پڑی ہوئی گرہیںکھلنے کے بجائے مزید الجھ جاتی ہیں۔
بیرونی عوامل اتنے طاقتور، پرکشش اور جاذب نظر ہیں کہ نئی نسل مغرب کے ہر فیشن اور تہذیبی و جنسی نظریے کو اپنانے پر مجبور ہوجاتی ہے۔ ادھر ہمارا بزرگ، اہل علم اور دانشور طبقہ ان نظریات کی تمام تر خرابیوں کو جانتے ہوئے بھی اب تک کوئی ایسا ٹھوس اور جاندار حل پیش کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکا جس سے ہم اپنی نسل کو تباہی کے اس غار میں گرنے سے بچاسکیں۔ بزرگوں کی اس چشم پوشی کے جو بھیانک اور تباہ کن نتائج آج کی نسل جنسی بے راہ روی کی شکل میں بھگت رہی ہے، وہ ایک قومی المیہ ہے۔ ہمارامعاشرہ مغربی تہذیب اور جنسی نظریات کو قبول کرنے کے بعد نیم کھوکھلا ہوچکا ہے۔
اس کا نتیجہ کیا نکلے گا؟ اس کے بارے میں پیش گوئی کرنا کوئی زیادہ مشکل نہیںہے۔ ہمارا معاشرہ جس تیزی سے بے راہ روی کی راہ پر چل پڑا ہے اس کا نتیجہ صرف تباہی کی صورت میں ہی نکل سکتا ہے۔
بزرگوں، علماء اور دانشوروں کا ایک ایسا طبقہ بھی ہے جو نئی نسل کو ہر وقت طعن و تشنیع کرنے میں مصروف رہتا ہے لیکن وہ شاید یہ بھول گئے ہیں کہ ان کا اصل فرض کیا ہے۔ کیا انہوں نے اپنی اولادوں، اپنے حلقہ اثر، اپنے سکولوں اور جامعات کو اس پھیلنے والی فحاشی کے اثرات بد سے آگاہ کیا؟ کیا انہوںنے اس بے راہ روی اور جنسی بد اعمالیوں سے پیدا ہونے والے امراض اور ان امراض کی وجہ سے ہونے والی ہلاکت آفرینیوں سے دوسروں کو آگاہ کرنے کا فریضہ انجام دیا ؟ اگر نہیں تو پھر جو ہورہا ہے محض اس پر شور و شغب سے کیا حاصل! اگر آپ نے اپنا فرض ادا کرتے ہوئے اپنے بچوں کو اسلامی جنسی و تہذیبی علوم سے آگا ہ کرنا ضروری خیال نہیں کیا تو پھر جو لٹریچر بھی آپ کے بچے پڑھ رہے ہیں، اس میں اگر کسی عضو کا نام آجاتا ہے تو بدکنا چھوڑ کیوں نہیںدیتے اور لٹھ لے کر اپنے بچوں کے پیچھے کیوں دوڑ پڑتے ہیں۔ انہیں گناہ گارقرار دے کر آپ کس خدمت خلق کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ براہ کرم دوئی کا یہ انداز چھوڑ دیجئے اور اپنے بچوں کے خلاف محاذ آرائی کرنے کے بجائے اپنے تمام تر فتاویٰ اور طاقت ان نادیدہ قوتوں کے خلاف استعمال کیجئے جو اس سارے فساد کی جڑ ہیں ان ہاتھوں کو کاٹیے جو آپ کے بچوں تک یہ اخلاق سوز اور غیر معیاری گھٹیا اور فحش لٹریچر پہنچانے اور تھمانے کے ذمے دار ہیں۔ اپنا صحیح فرض منصبی پہچانئے اور اپنے بچوں کو از خود وہ علم دیجئے جس کی آپ کے بیٹے یا بیٹی کو ضرورت ہے۔
یاد رکھئے! لفظ جنس نہ تو مکروہ لفظ ہے اور نہ اس میں کوئی گندگی ہے۔ یہ لازمی انسانی ضروریات میں سے ایک کا نام ہے۔ بالکل اسی طرح بلوغت کے بعد مسنون طریقے سے نوجوان لڑکے لڑکی کی شادی اور باہم میلان بھی ایک اہم ضرورت ہے اور اس کا علم حاصل کرنے سے ہماری مرادیہ ہے کہ شادی سے پہلے خصوصاً زمانہ طالب علمی میں جب بہت سے طلبہ اپنے فارغ اوقات میں باہم گپ شپ کریں یا مخصوص دوستوں کا چنائو کرکے مخصوص محفلیں سجائیں تو وہ ان محافل میں کی جانے والی خلاف وضع حرکات کے بھیانک نتائج سے آگاہ کرنے کی کوشش کریں جس سے نہ صرف ان کی صحت برقراررہے بلکہ اپنی آئندہ آنے والی زندگی میں وہ معاشرے کا ایک لاغرو بیمار فرد بننے اور ہزاروں روپے اپنے علاج معالجے پر خرچ کرکے گھریلو بجٹ کو متاثر کرنے کے بجائے ایک صحت مند اور روشن ضمیر انسان بن سکیں۔
میں اپنے بزرگوں‘ اپنے اساتذہ اور دانش ور دوستوں سے یہ مخلصانہ اپیل کروں گا کہ وہ انسانی جنسی جبلت پر قدغن لگانے کے بجائے بچوں میں یہ شعور پیدا کریں۔ بچوں کےسوالات پر بوکھلانے کے بجائے ان کی تسلی و تشفی کریں تاکہ وہ کوئی غلط محفل منتخب نہ کرسکیں۔ میں جنس کے موضوع پر لکھنے والے اپنے بھائیوں سے خصوصاً اپیل کروں گا کہ وہ اپنی تحریروں کو صاف ستھرا رکھ کر اس انداز سے اس علم کے بارے میں لکھیں کہ ہمارے نوجوان اور جنسی تبدیلیوں کے بارے میں متجسس افراد کی تشفی ہوسکے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں